
ٹیکسلا(بیورورپور ٹ )ٹیکسلا کے رہائشی غریب والدین کے لئے گھر میں موجود چار جوان دماغی طور پرمعزوربچیاں اور بچے بے چارگی کی تصویر بنے بوڑھاپے والدین کے لئے زندگی کا روگ بن گئے،ڈاکٹروں نے چاروں جوان بچوں کو مستقل طور پر دماغی معزور قرار دیکر لاعلاج قرار دے دیا،ریٹائرڈ منٹ کے بعد بوڑھے والد کا پنشن کے علاوہ کو زریعہ معاش نہیں،مہنگائی کے اس دور میں خاندان میں کسی کفیل کا نہ ہونا غریب والدین کی مصینتوں میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے،زمانے کے بے رحم دھپیڑوں نے غریب لاچار اور بدقسمت والدین کو دماغی مفلوج بنا دیا،جوان بیٹوں اور بیٹیوں کی معزوری بوڑھے والدین کا مقدر بن گئی ،زمانہ کی تلخیوں سے تنگ بوڑھے والدین اللہ سے موت کی دعائیں کرنے لگے،پنجاب حکومت کی جانب سے معزوروں کی مالی معاونت کے سلسلے میں جاری ہونے والے خدمت کارڈ کا حصول سفارش نہ ہونے کی بنا پر التواءکا شکار، خودداری اور انا کے خول نے ہاتھ پھلانے اور حقیقت سے پردہ آشکار کرنے سے روک رکھا ہے،میڈیا کے سامنے معزور جوان بچیوں اور بچوں کو لانے سے گریزاں خاندان ،زمانہ کی تلخ حقیقت اور گزرنے والے شب و روز بوڑھے والدین پر کتنے گراں گزر رہے ہے ، درد دل رکھنے والے ہی محسوس کر سکتے ہیں،، غمزدہ باپ کی صاحب ثروت افراد ، حکومت کے اعلیٰ حکام سے داد رسی کی اپیل،روز روز مرنے سے بہتر ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے پاس بلا لے، غمزدہ با پ میڈیا کو اپنی درد بھری داستان سناتے ہوئے آبدیدہ ہوگیا، بچوں کی جوانی کا سکھ دیکھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ نے ہمیں نہ ختم ہونے والی آزمائش سے دوچار کردیا، کب تک بوڑھے کندھوں پر اس بوجھ کو اٹھائے پھریں گے،تفصیلات کے مطابق ٹیکسلا کے علاقہ جمیل آباد گلی نمبر6/3 کے رہائشی غلام سرور جنہوں نے ساٹھ سال تک سرکاری ملازمت کی اور 2005 میں ریٹائرڈ ہوکر ملنے والی رقم سے اپنے ارو بچوں کے لئے سر چھپانے کے لئے جمیل آباد میں ایک مکان خریدا ، غلام سرور کے آٹھ بچے ہیں جن میں پانچ بچیاں جبکہ تین بیٹے ہیں ، تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کی شادی ہوچکی، جبکہ باقی چار بچے جن میں دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں دماغی معزوری نے انھیں ایسا آگھیرا کہ وہ مستقل معزوری کی کیفیت اختیار کر چکے ہیں،گھر میں واحد بوڑھا پنشنر غلام سرور ہے جو ان معزور بچوں کے علاج معالجے سمیت دیگر گھر کے اخراجات اٹھا رہا ہے ، دونوں بوڑھے میاں بیوی اپنے جوان معزور بچوں کو دیکھ دیکھ کر روز کڑتے ہیں انکی تمام حاجات کا خیال رکھتے ہیں،غلا م سرور کے مطابق دماغی معزور بچوں کا علاج ہر جگہ سے کرایا ، پیروں فقیروں کے پاس بھی گئے ہر وہ طریقہ اختیار کیا جس سے بچوں کی صحت بحال ہونے کی نوید ملتی ہو،مگر سب بے سود رہا ، ڈاکٹروں نے ان دو جوان بیٹیوں اور بیٹوں کا مستقل معزور اور زہنی مفلوج قرار دے دیا ہے،ڈاکٹرز کے مطابق انکے دماغی سیلز ختم ہوچکے ہیں زہنی معزوری کے باعث معزور بچے تعلیم بھی حاصل نہ کرسکے کچھ نے میٹرک اور کچھ میٹرک تک بھی نہ پہنچ پائے کہ انھیں ان تکالیف ے آن گھیرا،غلام سرور کے جوان معزور بچوں میں دو بیٹیا ں روبینہ ناز عمر 43 سال، ریحانہ کوثر عمر31 سال، جبکہ معزوربیٹوں میں محمد افضل عمر 36 سال،محمد زاہد عمر34 سال ہے،غریب بورھے والدین کو اس عمر میں جبکہ انھیں بچوں کی جوانی کی بہاریں دیکھنی تھیں ، معزوری کے روگ نے والدین کو ادھ موا کر کے رکھ دیا ہے، غلام سرور نے بتایا کہ اسکی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا شادی شدہ ہے جو اپنے گھروں میں رہ رہے ہیں ، سفید پوشی ،عزت ، انا نے انھیں اتنا مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنی جوان معزور بیٹیوں اور بیٹوں کی بابت کسی کو کچھ بتا بھی نہیں سکتے ڈر لگا رہتا ہے کہ شادی شدہ بیٹیوں کا اس پر اثر نہ پڑے ، اس غم کو لیکر روز جیتے ہیں روز مرتے ہیں اس خیال سے شائد کوئی مسیحا آئے گا اور ان کے زخموں پر مرحم رکھے گا ،غلا سرور کا کہنا تھا کہ اب تو زندگی بھی بے معنی لگتی ہے دونوں بوڑھے میاں بیوی دعا کرتے رہتے ہیں کہ اللہ ہمیں اٹھا لے ہماری پریشانیاں آسان کردے موت کی تمنا کرتے ہیں مگر موت نہیں آتی ، آخر کب تک ہم ان جوان معزور بچوں کا بوجھ اپنے نا تواں کندھوں پر اٹھائے پھریں گے ،یاہں یہ امر قابل زکر ہے کہ جب غلام سرور کو انکے معزور بچوں کی تصاویر اور ویڈیوز بنانے کے لئے کہا گیا تو مجبور بے کس باپ خون کے آ نسو رو پڑا اور کہنے لگا کہ میری بیوی بیٹیاں اسکی اجازت نہیں دیتیں ، کہیں اس کا اثر میری ان جوان شادی شدہ بیٹیوں پر نہ پڑ جائے جو اپنے شوہروں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہیں، آپ نے جو کچھ پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو تصویر یا ویڈیو میری مجبوری سمجھ کر چھوڑ دو ،میں نہیں چاہتا کہ میرے دوسرے بچے اس عذاب سے دوچار ہوں جس سے ہم روز ہوتے ہیں،یہاں اس بات کا زکر نہ کیا جائے تو انصاف نہ ہوگا کہ علاقہ کی معروف سماجی اور درد دل رکھنے والے شیخ مرسلین نے جو راول گڈز کے مالک کے نے ہمیں اس درد بھری داستان سے نہ صرف آگاہ کیا بلکہ درخواست کی کہ اگر میڈیا اس حوالے سے کوئی کردار ادا کر سکتا ہے تو مہر بانی فرما کر اس غمزدہ باپ اور اس پر بیتنے والے مصائب کو بھی حکام بالا تک پہنچایا جائے شائد کوئی درد دل رکھنے والا انکے غموں کا مداوا کر سکے جس سے انکی زندگی آسان ہوجائے ، جوانی کے عالم میں بچوں کی معزوری غریب اور بوڑھے والدین کے لئے کتنی تکلیف دہ ہوسکتی ہے اسکا ادراک وہی جانتا ہے جس پر بیت رہی ہوتی ہے،
ایک تبصرہ شائع کریں
ایک تبصرہ شائع کریں